وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے مالی سال 2021-22 کا 8487 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا،اخراجات کا تخمینہ 7523 ارب،ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829ارب، سبسڈیز کاتخمینہ 682 ارب، معاشی ترقی کا ہدف 4۔فیصد، بجٹ خسارہ6.3فیصد رہنے کی توقع ہے ۔ٹیکس اورنان ٹیکس ریونیوکا ہدف 7909 ارب ،سود کی ادائیگی کیلئے 3060ارب ، پنشن کیلئے 480 ارب ، سول حکومت کے انتظام کیلئے 479ارب، ہنگامی حالات اورکورونا سے نمٹنے کیلئے 100 ارب روپے رکھے گئے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں 10 فیصد اضافہ ،مقامی تیار چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی، کتابوں ،رسالوں اورزرعی آلات کو بھی ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنی ٰ مل گیا۔ بینک سے رقم نکلوانے ، سٹاک مارکیٹ اور مارجن فائنانسنگ پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کردیاگیا۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے ،ہمیں مشکل حالات میں حکومت ملی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20ارب ڈالر تھا، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6فیصد تھا جو گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ تھا،گزشتہ حکومت نے بیرونی قرضوں سے معیشت کو مصنوعی سہارا دیا، ہمارا بڑا چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا۔ عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے نہ لیتی تو ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا مشکل تھا، وزیراعظم عمران خان کی حکومت مشکل فیصلے کرنے سے نہیں ہچکچاتی،وزیراعظم کی سربراہی میں معیشت کو بڑے بحرانوں سے نکال کر لائے ہیں،پرائمری خسارہ کو ایک فیصد تک لایا گیا،اخراجات میں کمی اور آمدن میں اضافہ کی پالیسی اپنائی گئی۔ معاشی ترقی کی شرح تقریباً ہر شعبے میں ریکارڈ کی گئی ۔ زراعت کے شعبے میں ٹڈی دل کے باجود اضافہ دیکھا گیا،کپاس کے سوا تمام فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، زراعت اور صنعتوں کے شعبوں میں ترقی کے بعد سروسز کے شعبوں نے ترقی دکھائی، ہماری پالیسیوں کے باعث کسانوں کو301ارب کا منافع ہوا، ٹیکس وصولی 4 ہزار ارب کی نفسیاتی حد عبور کرچکی ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پرقابو پالیا ،سرکاری قرضے میں کمی آنا شروع ہوگئی،برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا، ہم معاشی گروتھ کلب میں شامل ہوگئے ،سمندر پار پاکستانیوں نے زرمبادلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ، روپے کی قدر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ، ترسیلات زر زیادہ آنے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا،کورونا کے باوجود فی کس آمدن میں 15 فیصد اضافہ ہوا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم کورونا کے بھیانک نتائج سے محفوظ رہے ، ہم نے پسے ہوئے طبقات کو امداد فراہم کی، کورونا کے دوران ہم نے بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش پر اعتراض کیا، احساس پروگرام کے تحت ایک درجن کے قریب پروگراموں کا آغاز کیا گیا، 12ملین گھرانوں کی مدد کی گئی۔ہمیں مہنگائی کے دباؤ کا سامنا ہے ۔پچھلے سال کم پیداوار کے باعث گندم درآمد کرنا پڑی۔ ہمیں چاہئے فوڈ امپورٹ نہ کریں، ہمیں زراعت پر توجہ دیکر زرعی اجناس میں خودکفیل ہونا پڑے گا۔ 74 سال سے معاشی طور پر کمزور طبقہ پستا رہا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان تاریخ کا رخ موڑنا چاہتے ہیں،نچلے طبقے کو چار سے چھ ملین گھرانوں کو کاروبار کیلئے آسان قرضے دیں گے ، غریب گھرانوں کو کاروبار کیلئے 5لاکھ تک بلاسود قرضہ دیں گے ، ہر گھرانے کو ہیلتھ کارڈ دیا جائے گا، ایک فرد کو مفت ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے گی، کاشتکار کو ہر فصل کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرض ملے گا، ٹریکٹر اور مشینی آلات کیلئے دو لاکھ روپے قرض دیا جائے گا۔ صوبوں کے تعاون سے زراعی پیداوار میں اضافہ کریں گے ، روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے ،برآمدات میں اضافہ کیاجائے گا۔ بجٹ میں تمام سیکٹرز کیلئے مراعات کا اعلان کررہے ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے ۔وزیراعظم کے کنسٹرکشن پیکیج سے تعمیراتی شعبے کو فروغ ملا ہے ، کم آمدن والے خاندانوں کو گھرکی خریداری یا تعمیر کیلئے 3لاکھ روپے سبسڈی دے رہے ۔ گردشی قرضے کم کرنے اور پھر ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں،سستی بجلی کی پیداوار کا حصول ممکن بنارہے ہیں۔ یکم جولائی سے وفاقی سرکاری ملازمین کو دس فیصد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا، پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے کی جا رہی ہے ۔ اردلی الائونس 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 کردیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے پانچ تک کے ملازمین کے انٹیگریٹڈ الائونس 450 روپے سے بڑھا کر900 روپے کئے جانے کی تجویز ہے ۔تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔ یہ بجٹ ترقیاتی بجٹ ہے ، اگلے دوسال میں پاورسیکٹر کیلئے مزید ریفارمز لائیں گے ۔ زیادہ منافع بخش کاروبار کو فروغ دیں گے ۔ پسماندہ علاقوں کیلئے 100 ارب، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے 14ارب ،سماجی شعبے کی ترقی کیلئے 118 ارب ، سماجی تحفظ اور تخفیف غربت پروگرام کیلئے 598.91 ملین روپے مختص کیے گئے ۔ احساس پروگرام کیلئے 260 ارب، کامیاب پاکستان پروگرام کیلئے 10ارب رکھے گئے ۔ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت کم آمدن ہاؤسنگ کی مد میں 20 لاکھ تک سستے قرضے دیئے جائیں گے ۔ یونیورسل ہیلتھ سکیموں میں صوبوں کے تعاون سے مزید وسعت لائی جائے گی۔اگلے مالی سال1.8 بلین ڈالر کورونا ویکسین پر خرچ کیے جائیں گے ۔ایس ایم ایز کو بلاضمانت قرضوں کیلئے سکیمیں تجویز کی گئی ہیں، ان قرضوں کی سکیموں کیلئے 12 ارب رکھے گئے ۔ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 3412 ارب ملیں گے ، بلوچستان کو 10 ارب اضافی فراہم کیے جائیں گے ۔سندھ کو 12ارب کی خصوصی گرانٹ دی جائے گی۔ سپیشل ٹیکنالوجی زونز کوٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز دی گئی ۔ سپیشل اکنامک زون کیلئے ٹرن اوورٹیکس بھی ختم کردیاگیا، یونیورسل ہیلتھ کوریج سکیم میں صوبوں کے تعاون سے مزید وسعت لائی جائے گی۔ فلاحی اداروں کو غیر مشروط ٹیکس سے چھوٹ دی جائیگی۔فضائی سفر، ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ اور معدنیات کی تلاش پر بھی ودہولڈنگ ٹیکس نہیں ہوگا۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2 ہزار ارب کے 50 منصوبے بھی بجٹ کا حصہ ہونگے ،آئی ایم ایف جانے سے بچنے کیلئے برآمدات بڑھانا اہم ہے ۔نئے بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس رجیم میں40 فیصد تک کمی کی تجویزدی گئی، 12 ود ہوڈنگ ٹیکس شقوں کو ختم کیا جائے گا، ان میں بیکنگ ٹرانزکیشن، پاکستان سٹاک ایکسچینج، مارجن فنانسنگ، ایئر ٹریول سروسز، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز شامل ہیں۔موبائل فون سروسز پر موجودہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 12.5فیصد سے کم کرتے ہوئے 10 فیصد کر نے کی تجویز ہے ،اسے 8 فیصد تک لایا جائے گا۔وفاقی وزیر خزانہ نے شہریوں کیلئے ’’میری گاڑی سکیم‘‘متعارف کرانے کااعلان کیا، سکیم کے تحت 850 سی سی تک کی گاڑیوں کیلئے کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی جبکہ پہلے سے بننے والی گاڑیوں اور نئے ماڈل پر ایڈوانس کسٹم ڈیوٹی سے بھی استثنیٰ دیدیا گیا ، صنعتوں کو مشینری کی درآمد پرٹیکس چھوٹ دی جائے گی۔مقامی طور پر بنائی 850سی سی تک کی گاڑیوں پر ایکسائز ڈیوٹی ختم اور سیلز ٹیکس میں کمی کی جا رہی ہے ، چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 کی جارہی ہے ۔ الیکٹرک گاڑیوں کیلئے ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کی جارہی ہے ، مقامی سطح پر تیار ہونے والے ہیوی موٹرسائیکل ، ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پر ٹیکسوں کی کمی کی جارہی ہے ۔ آئل فیلڈ سروسز، ویئر ہائوسنگ سروسز، کولیکٹرل مینجمنٹ سروسز، سکیورٹی سروسز اور ٹریول اینڈٹور سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس شرح کو آٹھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد تک کرنے کی تجویز ہے ۔ خوردنی تیل ، گھی ، فولاد، پھلوں کے جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کی جا رہی ،جان بچانے والی 6ادویات سستی کردی گئیں،لیدر، پولٹری، طبی سامان کے خام مال پر ڈیوٹیز کم کر دی گئی ،فوڈ پراسیسنگ ،پرنٹنگ اورٹورازم انڈسٹری،پولٹری،فٹ ویئر اور پلاسٹک انڈسٹری ، پیکیجنگ ،الیکٹرانک مینوفیکچرنگ انڈسٹری ،فرنیچر ،مصنوعی لیدر انڈسٹری پر بھی کسٹم ڈیوٹی کم کر دی گئی،امپورٹڈ موبائل فون،امپورٹڈ ٹائر،گاڑیوں اور یو پی ایس میں استعمال ہونے والی بیٹریاں،کاسمیٹکس ،پرفیوم،سرخی پاؤڈر،درآمدی مکھن ،پنیر،فرنیچر، مصنوعی لیدر، پولٹری اورجانوروں کی خوراک مہنگی ہوگئی۔بھینس بکری سمیت مویشیوں کی ویکسین کوکسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ دیدی گئی ۔آن لائن خریداری کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائیگا،بینکوں سے رقم بھجوانے پرودہولڈنگ ٹیکس ختم کردیاگیا،کریڈٹ اورڈیبٹ کارڈزسے خریداری پرچارجزمیں کمی،کریڈٹ کارڈاورڈیبٹ کارڈ سے انٹرنیشنل خریداری پربھی ٹیکس نہیں لگے گا۔رجسٹرڈدکانداروں سے خریداری کرنے والوں کو25کروڑماہانہ کے انعامات ہونگے ،مقامی طورپرتیارہیوی موٹرسائیکل،ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پربھی ٹیکس میں کمی کااعلان کردیاگیا،بھینس بکری سمیت مویشیوں کی ویکسین کوکسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ مل گئی،موبائل فون کالز،انٹرنیٹ ڈیٹااورایس ایم ایس مہنگے ،ڈیوٹی بڑھادی گئی،موبائل فون پر 3 منٹ کی کال کے بعد ایک روپیہ اضافی ڈیوٹی لگے گی،انٹر نیٹ ڈیٹاایک گیگا بائٹ پر 5 روپے اضافی دینا ہوگا۔ٹیلیکام خدمات پر فیڈریل ایکسائز ڈیوٹی 17 فیصد سے 16 فیصد کمی کی تجویز ہے ۔ مرچنٹ ڈسکاٹ ریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، آٹو ڈس ایبل سرنج اور آکسیجن سلنڈر پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ دینے کی تجویز ہے ۔ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بلوں کی ادائیگی کرنے والے صارفین کیلئے انعامی سکیم رکھنے کی تجویز دی گئی۔ ڈسپوزل آف سکیورٹیز پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد تک کی جائے گی۔ زراعت کا 5 فیصد ،صنعتوں کا 6.5 فیصد جبکہ مینوفیکچرنگ کے شعبے کا گروتھ ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا گیا۔اہم فصلوں کی پیداوار کیلئے 2.2 فیصد گروتھ کا ہدف رکھا گیا۔ کپاس کیلئے پیداواری گروتھ کا ہدف 10 فیصد مقرر کیا گیا۔زرعی اجناس کے ذخیرہ گوداموں کو ٹیکس چھوٹ کی تجویز ہے ،وزیراعظم کی خصوصی ہدایات پر اینٹی ریپ فنڈ قائم کیا جا رہا جس کیلئے 10 کروڑ روپے کی رقم رکھی گئی ہے ۔ بعدازاں مالیاتی بل ایوان بالا میں پیش کردیا گیا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اراکین کو ہدایت کی کہ وہ پیرسے اس حوالے سے سفارشات سینٹ سیکرٹریٹ کو جمع کرا سکتے ہیں۔
پاکستان بجٹ 2021-22
- by Admin